مصر: قدیم عجوبوں اور جدید ترقیات کی سرزمین


مصر: قدیم عجوبوں اور جدید ترقیات کی سرزمین
مصر: قدیم عجوبوں اور جدید ترقیات کی سرزمین

مصر: قدیم عجوبوں اور جدید ترقیات کی سرزمین

تعارف: 

مصر، جو باضابطہ طور پر "عرب جمہوریہ مصر" کہلاتا ہے، ایک ایسا ملک ہے جس کی تاریخ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں بے مثال اور نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ مصر کی تہذیب پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے، جس نے ثقافت، سائنس، مذہب، اور حکمرانی کے شعبوں میں گراں قدر حصہ ڈالا۔ اس کی عظیم عجوبے جیسے اہرامِ جیزہ، عظیم ابو ہول، اور لکسور کے معابد نے زمین کے ساتھ ترقی کی اور ایک شاندار ورثہ چھوڑا جو ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

مصر صرف ایک قدیم ملک نہیں ہے، بلکہ گذشتہ صدی میں یہاں سیاسی، اقتصادی، اور سماجی سطح پر بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو قدیم دنیا میں تجارت اور علم کا مرکز تھا اور اب ایک جدید جمہوریت کے طور پر دنیا کے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مضمون مصر کو جغرافیہ، تاریخ، ثقافت، معیشت اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔

مصر کا جغرافیہ: 

مصر شمال مشرقی افریقہ میں واقع ہے، جس کی سرحدیں شمال میں بحیرۂ روم، مشرق میں بحیرۂ احمر، جنوب میں سوڈان اور مغرب میں لیبیا سے ملتی ہیں۔ ملک کا ایک جزیرہ نما سینائی بھی ہے جو افریقہ کو ایشیا سے جوڑتا ہے، جس کی بدولت مصر ایک بین القومی ملک بن گیا ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 1,001,450 مربع کلومیٹر (تقریباً 387,000 مربع میل) ہے، جو اسے افریقہ کے سب سے بڑے ممالک میں شامل کرتا ہے۔

مصر کا بیشتر حصہ صحرا پر مشتمل ہے، جس میں مغربی صحرا اور مشرقی صحرا شامل ہیں جو بحیرۂ احمر کے کنارے پر واقع ہیں۔ تاہم، مصر کا سب سے اہم حصہ دریائے نیل کا وادی اور ڈیلٹا ہے جو اس ملک کے خشک علاقے میں سبزہ اور زیادہ آبادی کا باعث ہے۔ دریائے نیل ہی مصر کی زندگی کی رگ ہے جو پانی اور نقل و حمل کے راستے فراہم کرتا ہے، اور زراعت کی ترقی کو ممکن بناتا ہے۔

مصر کا موسم عموماً خشک اور گرم ہوتا ہے، جہاں گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں معتدل درجہ حرارت ہوتا ہے۔ ساحلی علاقے بحیرۂ روم کے ساتھ زیادہ خوشگوار موسم رکھتے ہیں جبکہ بحیرۂ احمر کے کنارے والے علاقے دھوپ والی حرارت رکھتے ہیں۔

دریائے نیل: مصر کی زندگی کی رگ 

دریائے نیل تقریباً 6,650 کلومیٹر (یا 4,130 میل) طویل ہے اور یہ بحیرۂ روم میں گرتا ہے۔ یہ مصر کا سب سے اہم قدرتی وسیلہ ہے۔ دریائے نیل دو اہم شاخوں پر مشتمل ہے: سفید نیل، جو مشرقی افریقہ سے آتا ہے، اور نیلا نیل جو ایتھوپیا سے نکلتا ہے۔ یہ دونوں شاخیں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے قریب ملتی ہیں اور شمال کی طرف بہتی ہیں۔

نیل مصر کی زراعت کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے کناروں پر ایسی زمین موجود ہے جو ہر سال سیلاب سے بھر جاتی ہے اور یہ کھاد کے طور پر کام آتی ہے۔ نیل نہ صرف مصر کی اقتصادی زندگی بلکہ اس کے مذہبی اور ثقافتی روایات میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ قدیم مصر میں نیل کو خدا ہیپی کے طور پر جانا جاتا تھا جو زمین کو خوشحال بنانے والا مانا جاتا تھا۔

مصر کی تاریخ:

قدیم مصر: مصر کی تاریخ تقریباً 3100 قبل مسیح تک جاتی ہے، جب فرعون نارمر (جنہیں بعض اوقات مینیس بھی کہا جاتا ہے) نے اُوپر اور نیچے مصر کو ایک سلطنت میں ضم کیا۔ اس کے بعد ایک طویل فرعونی سلسلہ شروع ہوا جو تین ہزار سال تک مصر پر حکمرانی کرتا رہا۔ قدیم مصر کو تاریخ کی سب سے ترقی یافتہ تہذیبوں میں شمار کیا جاتا ہے، جس نے تحریر، فن تعمیر، ریاضیات، طب اور دیگر کئی شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔

پرانا سلطنت (2686–2181 قبل مسیح): پرانے دور کو "اہراموں کا دور" بھی کہا جاتا ہے، اور اسی دور میں جیزہ کے اہرام جیسے عظیم عجوبے تعمیر کیے گئے تھے۔ اس دور میں بادشاہی طاقت اور مرکزیت کے نظام کی بنیاد رکھی گئی۔

درمیانی سلطنت (2055–1650 قبل مسیح): درمیانی سلطنت کے دوران مصر کی اقتصادی خوشحالی اور فوجی کامیابیاں سامنے آئیں۔ اس دور میں فنون لطیفہ کی ترقی ہوئی اور ادبیات نے بھی عروج پایا، جس میں سب سے مشہور "امنیہت کی مجلس" ہے۔

نیا سلطنت (1550–1070 قبل مسیح): یہ دور قدیم مصر کی سب سے بڑی عروج کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اس دور میں مصر ایک عظیم سلطنت بن گیا اور اس نے نوبیا اور مشرقی دنیا کے علاقوں میں فوجی مہمات چلائیں۔ اس دور کے عظیم فرعونوں میں رمسس دوم، ہاتشیپسوٹ، اور اخاتنات شامل ہیں۔

مصر کا زوال: نیا سلطنت کے بعد مصر میں زوال آنا شروع ہوا، جس کی وجہ غیر ملکی حملے اور داخلی عدم استحکام تھے۔ لبیائیوں، نیوبیائیوں، فارسیوں اور بعد میں سکندر اعظم کی فوجوں نے مصر پر حملہ کیا۔ سکندر کی وفات کے بعد، مصر پر پٹولیمائی خاندان کا حکمرانی شروع ہوا، اور کلیوپاترا ساتویں اس خاندان کی آخری اور مشہور حکمران تھیں۔

جدید مصر: قدیم مصر کے فرعونی سلسلے کے زوال کے بعد مصر رومن سلطنت کا حصہ بن گیا۔ صدیوں کے دوران مصر مختلف غیر ملکی طاقتوں کے زیر اثر آیا، جن میں عربوں کا 7ویں صدی میں حملہ، عثمانی سلطنت اور برطانوی سلطنت شامل ہیں۔ مصر نے 1952 میں آزادی حاصل کی جب "فری آفیسرز موومنٹ" نے بادشاہت کو ختم کرکے جمہوریت قائم کی۔

جدید مصر کی معیشت: مصر کی معیشت افریقہ میں نائیجیریا کے بعد دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور یہ خطے کی سب سے متنوع معیشتوں میں سے ایک ہے۔ مصر کی معیشت کئی شعبوں پر انحصار کرتی ہے جن میں زراعت، صنعت، خدمات، اور سیاحت شامل ہیں۔

معیشت کے اہم شعبے:

  • تیل اور گیس: مصر تیل اور قدرتی گیس کی پیداوار میں ایک اہم ملک ہے، خاص طور پر بحیرۂ روم اور بحر احمر کے سمندری میدانوں میں۔
  • زراعت: نیل ڈیلٹا مصر کے زرعی شعبے کا دل ہے جہاں گندم، کپاس، چاول اور مختلف پھل اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔
  • سیاحت: مصر ایک اہم سیاحتی مرکز ہے جہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ جیزہ کے اہرام، وادیٔ بادشاہان، اور لکسور جیسے مشہور مقامات دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

مصر کی ثقافت:

  • زبان: مصر کی سرکاری زبان عربی ہے، خاص طور پر مصری عربی جو ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی بولی ہے۔
  • مذہب: اکثریت مسلمان ہیں، جن میں 90% سنی اسلام کے پیروکار ہیں، اور ایک بڑا عیسائی اقلیتی گروہ بھی ہے، خاص طور پر کوپٹک عیسائی۔
  • فنون اور ادب: مصر کا فن اور ادب بے حد اہم ہے، قدیم مصری فن اپنے منفرد انداز کے لیے مشہور ہے۔ جدید مصری ادب میں نجيب محفوظ جیسے مصنفین نے اہم مقام حاصل کیا ہے۔

مصر میں سیاحت:

مصر کا سیاحتی شعبہ دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ جیزہ کے اہرام، نیل دریا کے کنارے، لکسور اور سرخ سمندر کے ساحلی سیاحتی مقامات جیسے شرم الشیخ اور ہورگڈا سیاحوں کے لیے اہم مقامات ہیں۔

2/2

Post a Comment

Previous Post Next Post